Wednesday 28 March 2018

دستک

پچھلی رات کی ہی بات ہے، کوشش کرتے کرتے نیند آ ہی گئ پر نہ جانے کہیں گم سی معلوم ہو رہی تھی۔ خیر دیر آۓ درست آۓ,  پر درست ہی تو نہ آۓ۔  کافی سوچ لینے کے بعد نتیجہ جو نکلا  وہ نیند کے آجانے کے بعد خواب بن کر خواب تک ہی محدود رہا۔

نیند تو آگئ تھی پر ابھی تو دیوار پر لگی گھڑی کا سیاہ ہاتھ ٣ کے ہندسے پر ایسے براجمان تھا کہ گویا ایک شک کا پہلو جاگ اٹھا, خواہ بیٹری خراب تو نہیں ہوگئ۔ 
ابھی صبح کے ٤ ہی بجے تھے کے دروازے پر اچانک سے دستک ہوئی۔ 
دل بہت تیز اور تیز ریپڈ بس کی سی رفتار سے دوڑنے لگا۔ 
پھر آہستہ آہستہ دستک تیز ہوتی گئی اور رفتارِ دھڑکن بھی اس سے مقابلے پر اتر آئی۔ 
 کچھ آنسو پھوٹ پڑے آنکھوں سے تو معلوم یوں ہوا کہ اگر کوئی بنی نوع انسان دل کے دروازے پر ستک دے تو دروازہ  کھول کر پچھتانا یا پھر نہ کھول کر گنوانا اتنا سوچ کر دل کو کیا دھڑکانا۔
 بس تھوڑا رو لینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاۓ اور کیا چاہۓ اس دلِ ناداں کو۔ دل کے مسائل کا یہ منفرد حل بس میں نے بھی گزری رات کو ہی جانا ہے۔

 باتیں، یادیں، ملاقاتیں، خواہشیں اور غرض سب کچھ کے ساتھ اب نہیں چلنا 
تھوڑے آنسو کے ساتھ جی لینا کافی ہے۔ 
اتنا کبھی اتوار کی دو پہر تک سوتے رہنے کے بعد بھی میں نے تازگی محسوس نہیں کی ہوگی جتنا بس آنکھوں میں کچھ وقت کے لیۓ نمی لانے سے محسوس ہوئی۔