Monday 16 April 2018

سوجانے دو!

آنکھ کھلتے ہی جانب چھت نظر جو گئی، معلوم ہوا کہ کچھ بدلا ہی نہیں، جس حال میں سویا تھا، اس ہی حال میں اٹھا ہوں۔ کچھ تو بدلا ہوتا۔ خوابِ آرزوؤں میں ڈوبتے ہوے کافی محلات سجاۓ تھے کہ نیند کے پرے بہت کچھ ہے۔۔۔ پر پنکھے کے پر اسی طرح گھوم رہے  کہ انکو با آسانی گنا جاسکتا ہو۔

 دیوار پر لگا ادھڑا ہوا سا کلر تھوڑا اور جھڑ گیا تھا۔ گویا بندہ ناچیز کو یہ باور کروانا مقصود ہو کہ آپ بھی کچھ جھڑے اور مرجھاۓ معلوم ہورہے ہیں۔

 برابر رکھے گلاس پر نظر پڑی تو وہ بھی آدھا خالی ہی پڑا تھا پر آدھی رات کی پیاس بجھانے کو کافی تھا۔

دائیں جانب کروٹ بدل کر ابھی آنکھ بند ہی کی تھی کہ اپنے موبائل کا خیال آیا کہ اب تک تو چارج ہو ہی گیا ہوگا۔ ناچاہتے ہوے بھی بستر چھوڑنا پڑا۔ واپس آیا توسوچا نوٹیفیکیشن ہی چیک کرلوں۔

 کچھ دیر سرفنگ کے بعد سوچا میں جاگ کیوں رہا ہوں؟ صبح  ہونے میں خاصا وقت پڑا ہے۔ تب تک سو ہی جاتا ہوں۔ کم از کم نیند تو پوری ہوگی۔ 
آنکھ بند کر کہ ابھی دائیں کروٹ لیٹا ہی تھا کہ ایک خیال آیا جو زندگی میں وقتی طور پر  ایک تہلکہ سا لے آیا۔۔۔

زندگی میں ایک ایورج شخص نسبتاًً ٥٠ سال یا ٦٠ سال جیتا ہے۔ جسمیں سالانہ ٣٦٥ دن عنایت کیےٓ جاتے ہیں ۔

ہر ایک یوم ٢٤ گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جنکا ٦٠ سال کا تخمینہ لگایا جاۓ تو یہ ٥٢٥٦٠٠ گھنٹے بنتے ہیں۔

ہر گزرتا ہوا ایک گھنٹہ ہمارے لیۓ ایک نصیحت لاتا ہے کہ جو پچھلے پہر لاحاصل رہا اسے اس پہر حاصل کرلو۔ جو حاصل نہ ہوپایا اسکو چھوڑ کرا اس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ حاصل کیاجاسکتا یے۔

یہ سوچتے سوچتے اچانک ایک خیال نے پھر سے دستک دی۔ 
میں اب تک اپنے پورے دو گھنٹے ان ہیں نامکمل سوچوں میں زایع کر چکاتھا۔

سوچوں میں گم جو آنکھ لگی تو پھر چار بار الارم کے اٹھانے سے بھی ناکھلی ۔ 
اگر صبح بجلی نہ جاتی تو شاید میری صبح نون میں ہوتی۔

انگڑائی اور جمائی کے ساتھ اٹھتے ہووے گلاس پر نظر پڑی جس میں اب پانی ختم ہوچکا تھا۔ سامنے دیوار کو دیکھا تو وہ اور مرجھی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ اور پنکھا بلکل ایسے رکا ہوا تھا کہ گویا کبھی چلا ہی نہ ہو۔

جب انسان اپنی زندگی کے اڑھائی ملین گھنٹوں میں سے تقریباً ایک ملین صرف سوکر راکھ کردے تو واقعی پھر کچھ نہیں بدلتا۔ نہ تو دیواریں، نہ پنکھے کی رفتاریں۔ اور خالی گلاس خالی ہی رہتا ہے۔